I
ہر سال پاکستانی اپنے اربوں روپے چائے کی پتی کی نذر کر دیتے ہیں، یہ روایتی مشروب ہر کھانے کے بعد اور کسی بھی قسم کی تقریب سے غائب ہو تو سب ادھورا سا لگنے لگتا ہے۔پاکستان سمیت دنیا بھر میں کچھ افراد کی صبح چائے کے بغیر نہیں ہوتی اور یہ ایک عام عادت پائی جاتی ہے کہ دودھ اور پتی والی چائے کو سبز چائے اور کافی پر فوقیت دی جاتی ہے، بغیر یہ سوچے سمجھے کے آیا یہ صحت پر کیسے اثرات مرتب کرتی ہے۔طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ ضرورت سے زیادہ سبز، کافی اور پتی والی کالی چائے (قہوہ) کا استعمال بے حد نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے مگر دودھ اور پتی والی چائے کا استعمال انسانی صحت کو نقصان پہنچانے میں سرِ فہرست ہے۔پتی اور دودھ سے بنی چائے کے استعمال سے صحت پر آنے والے منفی اثرات میں سے چند درج ذیل ہیں۔کیفین کی زیادتی اور نیند میں کمیچائے میں کیفین پائی جاتی ہے جو توانائی اور متحرک دماغ کو فروغ دیتی ہے، چائے کا زیادہ استعمال پرسکون نیند چھین سکتا ہے اور رات بھر جاگنے پر مجبور کر سکتا ہے۔نیند کی کمی متعدد مسائل جیسے تھکاوٹ، یادداشت کی کمزوری اور توجہ کی صلاحیت کو متاثر کرنے کا باعث بنتی ہے جبکہ اس سے موٹاپے اور بلڈ شوگر لیول بڑھنے کا خطرہ بھی ہوتا ہے۔تحقیقی رپورٹس کے مطابق سونے سے کچھ گھنٹےقبل صرف 200 ملی گرام کیفین کا استعمال بھی نیند کے معیار پر منفی اثرات مرتب کرسکتا ہے مگر ایسے افراد جو چائے پینے کے نتیجے میں نیند کی کمی کا شکار ہو رہے ہوں، انہیں اس کی مقدار میں کمی لانے پر غور کرنا چاہیے۔طبی ماہرین کے مطابق صرف کیفین ہی نہیں جو طرز زندگی کی خرابی، کینسر، اور دیگر ہاضمے سے متعلق بیماریوں کے خطرے کو جنم دے سکتی ہے بلکہ چائے کی لت میں ریفائنڈ چینی کا استعمال بھی اتنا ہی نقصان دہ ہے۔ ڈی ہائیڈریشن کا سبب کالی پتی اور دودھ کے ساتھ بنی چائے جسم سے پانی کے اخراج کا سبب بنتی ہے، اس میں موجود کیفین ’واٹر رینٹینشن‘ کا سبب بنتی ہے، اس کے زیادہ استعمال سے جسم میں پانی کی کمی کی شکایت ہو سکتی ہے، اسی لیے چائے کا استعمال ناصرف عام روٹین خصوصاً گرمیوں کے موسم میں کم کردینا چاہیے۔چائے کو خالی پیٹ پینے سے بھی جسم میں پانی کی کمی ہوجاتی ہے، آٹھ گھنٹے کی نیند کے بعد ہمارے جسم کو پانی کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ اس دوران جسم کو پانی مہیا نہیں ہو پاتا چنانچہ اپنے دن کی شروعات پانی کے ساتھ ہی کرنے کی عادت بنائیں۔
تیزابیت میں اضافہنہار منہ چائے پینا چاہے وہ سبز چائے (گرین ٹی) ہی کیوں نہ ہو صحت کے لیے خطرناک ہے۔ ناشتے سے پہلےجائے پی جائے تو اس سے معدے کی تیزابیت بڑھتی ہے جو سینے میں جلن، بدہضمی اور بار بار ڈکار آنے کی وجہ بنتی ہے۔جن لوگوں کو صبح سویرے چائے پینے کی عادت ہے انہیں چاہیے کہ وہ پہلے ٹھوس غذائیں کھائیں اور پھر ناشتے کے کم از کم آدھے گھنٹے بعد چائے پئیں۔منرلز اور وٹامنز کے جذب ہونے میں مسائل کا سامناچائے میں ٹینن نامی کمپلیکس مرکبات موجود ہوتے ہیں جو مخصوص غذاﺅں سے جسم میں آئرن جذب ہونے کے عمل کو متاثر کرتے ہیں، آئرن کی کمی طویل مدت تک انیمیا یا خون کی کمی جیسے مرض کا سبب بنتی ہے۔تحقیقی رپورٹس کے مطابق چائے میں موجود یہ مرکبات غذا میں موجود وٹامنز اور منرلز خصوصاً کیلشیم اور آئرن کے جذب ہونے کے عمل میں رکاوٹ بن سکتے ہیں، طبی ماہرین تجویز کرتے ہیں کہ اگر آپ گوشت کھانا پسند نہیں کرتے تو چائے کا زیادہ استعمال بھی کرنے سے گریز کریں۔ماہرین کے مطابق آئرن کی کمی کے شکار اور چائے کے شوقین افراد کو چاہیے کہ وہ چائے کھانا کھانے کے کم از کم آدھے گھنٹے یا پھر 40 منٹ بعد پئیں تاکہ جسم کی وٹامنز اور منرلز جذب کرنے کی اہلیت متاثر نہ ہو۔سردرد کا سببکیفین کا استعمال سردرد کی شدت میں کمی لانے میں مدد دیتا ہے تاہم اس کی زیادہ مقدار سے اس کا اثر مضر ہو جاتا ہے، بہت زیادہ مقدار میں چائے پینا سردرد کا باعث بن سکتا ہے۔تحقیقی رپورٹس کے مطابق سو ملی گرام کیفین کا روزانہ استعمال بھی سردرد کا باعث بن سکتا ہے تاہم ہر ایک فرد میں اس مقدار کا انحصار اپنی برداشت پر ہوتا ہے۔ذہنی بے چینی اور تناﺅ کا سببچائے کی پتی میں قدرتی طور پر کیفین موجود ہے اور کیفین کا چائے یا کسی بھی شکل میں بہت زیادہ استعمال ذہنی بے چینی اور بے سکونی اور تناﺅ کا باعث بن سکتا ہے۔چائے کے ایک کپ میں اوسطاً 11 سے 61 ملی گرام کیفین ہوسکتی ہے (اس کا انحصار چائے کی قسم اور بنانے کے طریقے پر ہوتا ہے)، سیاہ یا دودھ کے بغیر چائے میں دودھ والی چائے کے مقابلے میں زیادہ کیفین ہوتی ہے اور چائے کے لیے جتنی زیادہ پتی استعمال کریں گے کیفین کی مقدار اتنی ہی زیادہ بڑھ جائے گی۔محققین کے مطابق دن بھر میں 200 ملی گرام سے کم کیفین کا استعمال بیشتر افراد میں ذہنی بے چینی بڑھانے کا باعث بن سکتا ہے۔دانتوں کی خرابی کی وجہنہار منہ چائے پینے سے منہ میں موجود ’بیکڑیا‘کی تعداد بڑھ جاتی ہے جو دانتوں کی خرابی کا باعث بنتی ہے، اس لیے چائے کو رات کے کھانے کے بعد کے بجائے ناشتے کے بعد ہی اپنی غذا میں شامل کرنا بہتر فیصلہ ہوگا۔