فرمان الہی بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ. الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ   اللہ کے نام سے شروع جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے. سب طرح کی تعریف خدا ہی کو (سزاوار) ہے جو تمام مخلوقات کا پروردگار ہے بڑا مہربان نہایت رحم والا انصاف کے دن کا حاکم (اے پروردگار) ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں ہم کو سیدھے رستے چلا ان لوگوں کے رستے جن پر تو اپنا فضل وکرم کرتا رہا نہ ان کے جن پر غصے ہوتا رہا اور نہ گمراہوں کے   *        I Free Palestinevisit to ANF
14 Sep
Controversy over election date?

انتخابات کی تاریخ کا تنازعہ؟

جمہوری ملکوں میں پارلیمنٹ کے انتخابات آئینی تقاضوں کے تحت ایک طے شدہ نظام الاوقات کے مطابق مقررہ وقت پر کرائے جاتے ہیں جس پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہوتا۔ وسط المدتی انتخابات کی ضرورت پڑے تو وہ بھی اسی قاعدے اور قانون کے تحت ہوتے رہتے ہیں لیکن پاکستان میں ایسا کم ہی دیکھنے میں آیا ہے کہ پارلیمنٹ اور اسمبلیوں کیلئے انتخابی عمل کسی تنازعے کے بغیر مکمل ہوا ہو۔ یہ انفرادیت بھی ہمارے ہی ملک کو حاصل ہے کہ برسر اقتدار منتخب حکومت کی دیانتداری پر کسی کو اعتبار ہی نہیں اور الیکشن قریب آنے پر نگران عبوری حکومت قائم کی جاتی ہے جو ایک آمر مطلق کی ذہنی اپج کا ورثہ ہے جسے تبدیل کرنے کی کسی جمہوری حکومت میں ہمت ہی نہیں۔ اس وقت بھی ملک ایک نگران حکومت کے ماتحت ہی الیکشن کی طرف جا رہا ہے۔ لیکن انتخابات کب ہونگے اسکا کسی کو کوئی علم نہیں۔ سابق حکمران پارٹی تحریک انصاف سمیت بعض سیاسی پارٹیاں منتخب قومی اسمبلی کی تحلیل سے 90روز کے اندر انتخابات کا مطالبہ کر رہی ہیں جبکہ بعض معاشی بحران کے پیش نظر تاخیر کے حق میں ہیں۔ صدر عارف علوی اپنی سیاسی جماعت پی ٹی آئی کے مطالبے پر 90روز کے اندر انتخابات کی تاریخ مقرر کرنے کیلئے بے تاب نظر آتے ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے قانونی ماہرین کی رائے بھی لی ہے اور گزشتہ روز دوسری مرتبہ نگران وفاقی وزیر قانون سے ملاقات کی ہے جسے انہوں نے انتخابات کیلئے مشاورتی عمل کا حصہ قرار دیا ہے۔ خیال ہے کہ وہ کسی وقت بھی انتخابات کی تاریخ کا اعلان کر سکتے ہیں لیکن دوسری طرف نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے واضح کیا ہے کہ عام انتخابات کی تاریخ مقرر کرنے کا مجاز الیکشن کمیشن ہی ہے اس لئے اس معاملے میں قیاس آرائیاں نہیں کرنی چاہئیں۔ ملک کی ایک بڑی جماعت پیپلز پارٹی کی قیادت اس معاملے میں منقسم ہے۔ آصف زرداری تاخیر کے حق میں ہیں جبکہ بلاول بھٹو 90 روز کے اندر انتخابات چاہتے ہیں۔ مسلم لیگ ن اور بعض قانونی ماہرین اس معاملے میں صدر کے اختیار کو چیلنج کر رہے ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ عارف علوی کی مدت صدارت 9 ستمبر کو ختم ہو چکی ہے۔ اب ان کی حیثیت ایک عبوری صدر جیسی ہے جس کے معمول کے آئینی اختیارات ختم ہو گئے ہیں۔ وہ الیکشن کی تاریخ دینے کے مجاز نہیں رہے، الیکشن کے شیڈول کا فیصلہ الیکشن کمیشن ہی کر سکتا ہے جسے نئی خانہ و مردم شماری کے مطابق پہلے نئی انتخابی حلقہ بندیاں کرنی ہیں اور اسکے بعد انتخابات کرانا ہیں۔ صدر اسی صورت میں انتخابات کی تاریخ مقرر کر سکتا ہے جب وزیر اعظم اسے ایڈوائس کرے۔ سیاسی حلقوں اور قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ صدر نے اگر انتخابات کی تاریخ مقررکر دی تو الیکشن کمیشن اسے مسترد کر دے گا جیسا کہ اس نے پنجاب اسمبلی کے معاملے میں چار ماہ قبل کیا تھا۔ ایسی صورت میں عدم سیاسی استحکام اور بے یقینی کی صورتحال جنم لے گی اور معاشی بحران جس نے پہلے ہی ملک کو جکڑ رکھا ہے مزید سنگین ہو جائے گا۔ شاید اسی لئے صدر مملکت بھی احتیاط سے کام لے رہے ہیں۔ مبصرین اس مخمصے سے نکلنے کیلئے معاملہ عدلیہ میں جاتا دیکھ رہے ہیں۔ صدر انتخابات کی تاریخ کا اعلان کریں یا اس سے پہلے الیکشن کمیشن کوئی فیصلہ کردے، متاثرہ فریق کیلئے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کے سوا کوئی راستہ نہیں رہ جائے گا۔ غیر جانبدار تجزیہ کاروں کی رائے میں یہی ایک محفوظ اور معقول راستہ بھی ہے۔ عدالتی عمل میں بھی کچھ وقت لگے گا جس سے انتخابات 90دن میں ہونا ممکن نہیں رہیں گے لیکن آئین کی منشا جاننے اور اس کے مطابق صاف و شفاف اور منصفانہ انتخابات کیلئے بہتر ہے کہ یہی راستہ اختیار کیا جائے۔