فرمان الہی بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ. الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ   اللہ کے نام سے شروع جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے. سب طرح کی تعریف خدا ہی کو (سزاوار) ہے جو تمام مخلوقات کا پروردگار ہے بڑا مہربان نہایت رحم والا انصاف کے دن کا حاکم (اے پروردگار) ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں ہم کو سیدھے رستے چلا ان لوگوں کے رستے جن پر تو اپنا فضل وکرم کرتا رہا نہ ان کے جن پر غصے ہوتا رہا اور نہ گمراہوں کے   *        I Free Palestinevisit to ANF
05 Sep
Hazrat Data Ganj Bakhsh History In Urdu Data Sahib Ali Hajveri


  1. داتا گنج بخش

  2. نام و نسب
    آپ کا پورا نام شیخ سید ابو الحسن علی ہجویری ہے۔ کنیت ابوالحسن لیکن عوام وخواص سب میں گنج بخش " یا " داتاگنج بخش " (خزانے بخشنے والا) کے لقب سے مشہور ہیں۔ آپ 400 ہجری میں غزنی شہر سے متصل ایک بستی ہجویر میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد بزرگوار کا اسم گرامی سید عثمان جلابی ہجویری ہے۔ جلاب بھی غزنی سے متصل ایک دوسری بستی کا نام ہے جہاں سید عثمان رہتے تھے۔ علی ہجویری ، حضرت زید کے واسطے سے امام حسین کی اولاد سے ہیں۔
    آپ کا طریق
    آپ کے نزدیک صوفی صفا سے مشتق ہے۔ اور صفا کی اصل دل کو غیر اللہ سے منقطع اور دنیاء غدار سے خالی کر کے اسے اللہ سے جوڑنا ہے۔ گویا اس کا مطلب اخلاص اور سچی محبت کے ساتھ خدا کی بندگی کی راہ اختیار کرنا ہے۔ نہ کہ کوئی خاص وضع قطع اختیار کرنا۔ آپ فرماتے ہیں: کہ طالب کو تمام احوال میں شرع اور علم کا پیرو ہونا چاہیے۔ کیونکہ سلطان علم سلطان حال پر غالب اور اس سے افضل ہے۔ چنانچہ آپ چالیس برس مسلسل سفر میں رہے لیکن کبھی نماز با جماعت ناغہ نہیں کی۔ اور ہر جمعہ کی نماز کے لیے کسی قصبہ میں قیام فرمایا۔ عام رہن سہن عام لوگوں کی طرح رکھتے۔ صوفیوں کی ظاہری رسوم اور وضع قطع سے آپ شیخ طریقت شیخ ابو الفضل محمد بن ختلی رحمتہ اللہ علیہ کی طرح ہمیشہ مجتب رہے۔ بلکہ اس سے آپ کو ایک گونہ نفرت تھی، اور ان چیزوں کو ریاکاری و نمائش اور معصیت کا نام دیتے تھے۔
    نکاح کے بارے میں آپ نے فرمایا کہ جو شخص مخلوق میں رہنا چاہے اس کے لیے نکاح کرنا شرط ہے۔ اور اگر بغیر نکاح کے
    اس کے زنا میں مبتلا ہو جانے کا اندیشہ ہو تو اس کے لیے نکاح فرض ہے۔ لیکن جو مخلوق سے الگ تھلگ رہتا ہو اس کے لیے
  3. مجرور رہنا اچھا ہے تا کہ اس کی وجہ سے کوئی نیک سخت پریشان نہ ہو اور وہ بھی یکسوئی کے ساتھ اللہ کی ملازمت کر سکے۔ آپ چونکہ اپنی عمر کا بیشتر حصہ سفر اور مسافرت ہی میں رہے۔ اس لیے آپ نے شادی نہیں کی بلکہ تجرد کی زندگی گزار دی۔ لیکن تجرد کے ہلاکت خیز خطرات کے سلسلے میں فرماتے ہیں کہ اللہ عزو جل نے گیارہ برس تزویج (نکاح) کی آفت سے بچایا۔ لیکن تقدیر کا لکھا سامنے آیا اور میں نے بن دیکھے ایک پری صفت کا دل و جان سے گرویدہ ہو گیا۔ اور ایک سال اس طرح اس میں مستغرق رہا کہ قریب تھا کہ میر ادین تباہ وبرباد ہو جاتا لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے کمال لطف و مہربانی سے میرے دل پر عصمت و پاکیزگی کا فیضان فرمایا اور اپنی رحمت سے مجھے اس آفت سے نجات بخشی۔

لاہور میں آمد اور قیام

آپ اپنے مرشد کے حکم سے خدا کے دین کی تبلیغ و اشاعت کے لیے سلطان محمود غزنوی کے بیٹے ناصر الدین کے زمانے 1030 تا 1040ء میں لاہور تشریف لائے۔ آپ سے پہلے آپ کے پیر بھائی حسین زنجانی اس خدمت پر مامور تھے۔ اس لیے جب آپ کو لاہور آ۔ ر آنے کا حکم ہوا تو آپ فرماتے ہیں، کہ میں نے شیخ سے عرض کیا کہ وہاں حسین زنجانی موجود ہیں میری کیاضرورت ہے؟ لیکن شیخ نے فرمایا، نہیں تم جاؤ۔ فرماتے ہیں کہ میں رات کے وقت لاہور پہنچا اور صبح کو حسین زنجانی کا جنازہ شہر سے باہر لایا گیا۔ تبلیغ و اشاعت دین کے سلسلے میں آپ نے بر صغیر ہند کے دوسرے حصوں کا بھی سفر کیا۔ چنانچہ آپ۔ کشف المحجوب۔ میں حضرت ابو حلیم حبیب بن اسلم راعی کے حالات میں لکھتے ہیں کہ شیخ رحمتہ اللہ علیہ کی اور بھی بہت سی روایتیں ہیں۔ وقت کی تنگی کی وجہ سے میں انھیں چھوڑتا ہوں اور مجھے یہ سخت دقت پیش آرہی ہے کہ میری کتابیں غزنی میں ہیں اور میں ملک ہندوستان کے ایک گاؤں بھنور میں ہوں جو کہ ملتان کے گردو نواح میں واقع ہے۔ اور بالکل غیر جنسوں میں گرفتار
ہوں۔

وقات

آپ کے وصال شریف کے بارے میں مورخین میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ چنانچہ سفینتہ الاولیاء میں دار شکوہ نے وصال باکمال 454ھ یا 464ھ ذکر کیا۔ غلام سرور لاہوری نے خزینتہ الاولیاء میں تاریخ وصال 464ھ یا 466 ہے۔ اے ، آر نکلس مترجم کشف المحجوب کے نزدیک وصال یا کمال 465ھ یا469 کو ہوا۔

روضہ مبارک
آپ کا روضہ ناصر الدین مسعود کے بیٹے ظہیر الدین الدولہ نے تعمیر کروایا۔ اور خانقاہ کا فرش اور ڈیوڑھی جلال الدین اکبر بادشاہ 1555ء تا 1605ء کی تعمیر ہیں۔ خواجہ معین الدین اجمیری 1639ء اور بابا فرید الدین گنج شکر نے کسب فیض کے لیے آپ کے مزار پر چلہ کشی کی ، اور معین الدین اجمیری نے چلہ کے بعد رخصت ہوتے وقت یہ شعر کہا؛ گنج بخش فیض عالم مظہر نور خدا ناقصاں را پیر کامل ، کاملاں را رہنما اسی سے آپ کی۔ گنج بخش کے نام سے شہرت ہوئی۔

  1. آپ کی تصانیف

    آپ نے حسب ذیل کتب کی تصنیف فرمائی، لیکن اب کشف المحجوب کے سوا کوئی اور کتاب نہیں ملتی۔ 
  2.  کشف المحجوب
  3.  کشف الاسرار منہاج الدین یہ کتاب اصحاب صفہ کے مناقب پر تھی۔ 
  4. الرعايته الحقوق اللہ 
  5. کتاب الفناد 
  6. سحر القلوب
  7.  کتاب البیان لابل العیان
    اسرار الحزق المؤنات
    شعر و شاعری سے بھی آپ کو چھپی تھی اور آپ کا دیوان بھی تھا۔ کشف المحجوب میں اس کاذکر کرتے ہوئے آپ نے لکھا ہے کہ بعض لوگ دوسروں کی تصانیف کو اپنے نام سے منسوب کر کے شائع کر دیتے ہیں۔ چنانچہ ایک شخص نے مجھے سے میرے شعروں کا دیوان دیکھنے کے لیے مانگا اور پھر واپس نہیں کیا۔ اور اس کے شروع سے میر انام محو کر کے اپنے نام سے پیش کر دیا۔ چونکہ دیوان کا یہی ایک نسخہ تھا جو وہ لے گیا۔ اس لیے میں کچھ نہ کر سکا اور اس نے میری محنت کو برباد کر
    دیا۔
    اسی طرح ایک اور شخص نے میری دوسری کتاب۔ منہاج الدین۔ جو میں نے تصوف پر تصنیف کی تھی، مجھ سے مانگی اور اس پر سے میر انام مٹاکر عوام الناس میں اسے اپنے نام سے شائع کر دیا۔
    مشہور قول
    آپ فرمایا کرتے: نفس کو اس کی خواہش سے دور رکھنا حقیقت کے دروازے 
  8. کی چابی ہے۔

تذکرۂ صالحینمُجَدِّد الفِ ثانی اور مجدد دین و ملت

ماہنامہ صفر المظفر1439

حضرت سیدنا شیخ احمد سرہِندی فاروقی نقشبندی  رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ  کی ولادت ہند کے مقام “ سرہِنْد “ میں 971ھ / 1563ء کو ہوئی اور 28صفر المظفر  1034ھ مطابق 1624ء کو  اپنے خالقِ حقیقی سے جاملے۔ (ماخوذ از تذکرۂ مجدد الفِ ثانی ، ص2۔ 38۔ 39)اعلیٰ حضرت امام اہل سنت امام احمد رضا خان  علیہ رحمۃ  الرَّحمٰن   کی ولادتِ با سعادت بریلی ہند کےمحلّہ “ جسولی “ میں  10 شوال المکرّم  1272ھ  مطابق 14 جون 1856ء میں ہوئی اور 25 صفر المظفّر  1340ھ مطابق 28 اکتوبر 1921ء  کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملے ۔ (ماخوذ از حیاتِ اعلی حضرت ، 1 / 58۔ 3 / 295) یہ دونوں  بزرگ اپنے  اپنے زمانے کے  مجدد اور عظیم  مذہبی و روحانی پیشوا تھے۔ اِن دونوں بزرگوں کی مبارک زندگیوں کے بعض گوشوں میں یکسانِیت نظر آتی ہے جن میں سے چند یہ ہے : (1)دونوں بزرگوں کا نام احمد ہے۔ (2)دونوں نے اپنے اپنے والد سے علمِ دین حاصل کیا۔ (3)دونوں حضرات کی تمام عُمْر اسلام کے خلاف اٹھنے والے فتنوں کی سَرکوبی میں بسَر ہوئی اور کبھی باطل کے سامنے سر نہیں جھکایا (4)دونوں کا وِصال صَفَرُ الْمُظَفَّر میں ہوا۔اللّٰہ تعالٰی کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری بے حساب مغفرت ہو۔