I
ہم ماشااللہ اپنا 76واں یوم آزادی منارہے ہیںان76سالوں میں ہم نے کیاکھویااورکیاپایایہ ایک سوال ہے جسکا جواب بہت مشکل ہے اس طویل عرصے میں ہم نے پایا تو کچھ بھی نہیں البتہ کھویابہت کچھ ہے ہم اپنے ہمسائیہ ملکوں کی طرف دیکھیں جوہمارے بعد آزاد ہوئے تھے وہ آج تیزی سے ترقی کی منزلیں طے کررہے ہیں اورہر لحاظ سے ہم سے آگے ہیں ۔افسوس کی بات ہے کہ ملک کاوہ حصہ جو کبھی ہمارے ساتھ تھا جسے ہم مشرقی پاکستان کہتے تھے اب بنگلہ دیش ہے وہ بھی ہم سے آگے نکل گیا ہے اورہم آج بھی آئی ایم ایف کے چنگل سے باہر نہیں آئے سیاستدان اسکی بےشمار وجوہات بیان کرتے ہیں مگر سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ آج تک کسی حکمران سے یہ کوشش ہی نہیں کی کہ اس بے ہنگم ہجوم کوایک قوم بنایا جائے جوملک کےلئے کچھ کرسکے ۔ہم آج بھی سیاستدانوں کے بھونڈے نعروں کے پیچھے لگ کراس ملک کونقصان پہنچا رہے ہیں۔پاکستان کتنی قربانیوں کے بعد معرض وجود میں آیا آج کی نوجوان نسل کویہ بتانے والا کوئی نہیں ہمارا کام بس یہی رہ گیا ہے کہ آزادی کاجشن جوش ولولے سے منایا جائے ۔ضرورمنانا چاہئے مگر اس طرح نہیں جس طرح ہمارے ہاں منایا جاتا ہے ایک طوفان بدتمیزی برپا ہوتا ہے سڑکوں پر نوجوان موٹرسائیکلوں کے سائلنسر نکال کرشورشرابا کرتے ہیں فحش گانوں پر ڈانس کی محفلیں سجائی جاتی ہیں۔کیایہ ہے اپنے ملک کی آزادی کاجشن منانے کاطریقہ ۔۔۔۔ان نوجوانوں کابھی قصور نہیں انہیں معلوم ہی نہیں کہ یہ آزادی ہمارے آبائو اجداد نے کیسے حاصل کی تھی اورکتنی قربانیوں کے بعد ہم یہ ملک حاصل کیاتھا انہیں تو بس یہ پتہ ہے کہ جشن مناناہے۔ہمارے ایک بزرگ بتاتے ہیں کہ جب یہ ملک آزاد ہوا اورقافلے بھارت سے آئے تو ایک خاندان جن میں خواتین مرد اورایک شیر خوار بچہ بھی تھا ان کے پیچھے کچھ ہندو لگ گئے جن کے پاس چاقو اورپستولیں تھیں یہ قافلہ ایک جگہ چھپ گیا تو اس شیر خوار بچے نے رونا شروع کردیااس پرقافلے میں شامل لوگوں نے کہا کہ بی بی اسے چپ کرائو کہیں ایسا نہ ہوکہ اسکی آواز سن کر یہ لوگ ہمیں ڈھونڈ لیں اورسب کوختم کردیں اسکی کچھ دیر بعد اس بچے کی آواز بند ہوگئی جس پر لوگوں نے پوچھا کہ کیابچہ سوگیا ہے اس پر اس خاتون نے روتے ہوئے بتایا کہ میں نے اسکی آواز بند کردی ہے ۔سب نے پوچھا کیسے اس نے کہا کہ میں نے اسکا گلہ گھونٹ دیا ہے ۔یہ ہے وہ آزادی جو ہم نے شیر خوار بچوں کی قربانی دیکر حاصل کی مائوں نے اپنے لخت جگر اپنے ہاتھوں سے قربان کردئیے کئی لڑکیوں نے اپنی عزت بچانے کیلئے دریا میں چھلانگ لگا دی ۔یہ سب اس ملک کوحاصل کرنے کیلئے ہی تھا مگر افسوس کہ ہم اس عظیم نعمت کاشکر کرنے کی بجائے ہلہ گلہ کرتے ہیں ۔رہی بات حکمرانوں کی تو وہ بھی پرچم کشائیاں کرکے اوربیان بازیا ں کرکے رہ جاتے ہیں کسی نے اس طرف توجہ ہی نہیں دی کہ اس دن کوکیسے منانا چاہیے ۔آج ہم جمہوریت کابہت ڈھنڈورا پیٹتے ہیں مگر ان 75سالوںمیں جمہوریت کے ساتھ جوکھلواڑ کیاگیا اس کی کومثال ملنا مشکل ہے ۔حکمران مثالیں تو جمہوری ممالک کی بہت دیتے ہیں مگر اسکی اصل روح کوہم آج تک نہیں جان سکے ۔اس ملک میں کتنے وسائل ہیں اسکا ہمیں اب اندازہ ہورہا ہے مگر ان بے پناہ وسائل کوہم آج تک استعمال نہیں کرسکے ۔یہاں ہر آنیوالا حکمران عوام کی مرضی سے نہیں کسی اور کی مرضی سے آتا ہے ہر بار انتخابات کے بعد دھاندلی کارونا رویا جاتا ہے اورپھرکچھ ہی عرصے کے بعد اپوزیشن حسب اقتدار کیخلاف صف آرا ہوجاتی ہے اورپھر حکومت کوختم کرواکر دوسری جماعت کولایا جاتا ہے یہ چکر ایک عرصے چل رہا ہے کوئی اسکے خلاف آواز نہیں اٹھاتا اسکی بڑی وجہ ہم خود ہیں ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم یوم آزادی پران شہداکوخراج عقیدت پیش کریں جن کی قربانیوں کی بدولت ہمیں یہ ملک حاصل ہوا ۔گھروں میں قرآن خوانی کی محفلیں سجائیں ۔یہ ناچ گانے سڑکو پرشور شرابا کسی مہذب قوم کوزیب نہیں دیتا ہرسال کہا جاتا ہے کہ پولیس نے انتظامات کرلئے کسی کوہلہ گلہ نہیں کرنے دیاجائیگااتنی فورس تعینات کردی گئی ہے مگر سب بے سود ثابت ہوتا ہے ساری رات نوجوان بڑے بڑے باجے لیکر گلی محلوں میں پھرتے ہیں جس سے گھروں میں بیمار بزرگ مرد وخواتین بہت تنگ ہوتی ہیںسڑکوں پرایک طوفان بدتمیزی برپا رہتا ہے کوئی روکنے والا نہیں ہوتا۔خدارا اس عظیم آزادی کی قدر کریں یہ ہمیں بہت قربانیوں کے بعد حاصل ہوئی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔