فرمان الہی بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ. الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ   اللہ کے نام سے شروع جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے. سب طرح کی تعریف خدا ہی کو (سزاوار) ہے جو تمام مخلوقات کا پروردگار ہے بڑا مہربان نہایت رحم والا انصاف کے دن کا حاکم (اے پروردگار) ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں ہم کو سیدھے رستے چلا ان لوگوں کے رستے جن پر تو اپنا فضل وکرم کرتا رہا نہ ان کے جن پر غصے ہوتا رہا اور نہ گمراہوں کے   *        I Free Palestinevisit to ANF
22 Jul
Lahore: SHO Civil Line arrested along with sub-inspector in his own police station

لاہور: ایس ایچ او سول لائن اپنے ہی تھانہ میں سب انسپیکٹر سمیت گرفتار

لاہور کے سول لائن تھانے کے ایس ایچ او اور ساتھی افسر کو ہوٹل سے بھتا وصول کرنے کے الزام میں رنگے ہاتھوں گرفتار کر کے اپنے ہی تھانے میں قید کردیا گیا۔

پولیس حکام کے مطابق ڈپٹی انسپیکٹر جنرل پولیس آپریشن لاہور علی ناصر رضوی کو برطانیہ میں مقیم ایک شہری نے شکایت کی تھی کہ لاہور میں لارنس روڈ پر واقع ان کے ہوٹل سے سول لائن تھانے کے ایس ایچ او اور ایک سب انسپکٹر ماہانہ بھتا طلب کر رہے ہیں۔اس شکایت پر ڈی آئی جی آپریشن نے سخت کارروائی کی ہدایت کی جس پر ہوٹل منیجر نے ایس ایس پی آپریشن لاہور سہیل اشرف سے رابطہ کیا۔ہوٹل کے منیجر محمد مشتاق کے مطابق 17 جولائی کو سول لائن تھانے کے سب انسپیکٹر اختر حسین سادہ کپڑوں میں ان کے پاس ہوٹل آئے اور مختصر دورانیے کے لیے کمرہ بک کرنے کا کہا اور من مرضی کے پیسے دینے کی آفر کی۔ منیجر کے مطابق انہوں نے انکار کیا اور بتایا کہ ہوٹل صرف فیملیز اور مسافروں کے لیے ہے جس پر اختر حسین نے خود کو پولیس افسر ظاہر کیا اور بتایا کہ وہ ایس ایچ او کے لیے کمرہ بک کرنا چاہتے ہیں۔ہوٹل منیجر کے مطابق اس پر بھی وہ مرعوب نہیں ہوئے اور انہوں نے کمرہ دینے سے صاف انکار کر دیا۔منیجر محمد مشتاق کے مطابق اس پر اختر حسین نے کہا کہ انہیں ایس ایچ او ندیم شیخ نے بلوایا ہے۔ سب انسپیکٹر انہیں گنگا رام اسپتال کی پولیس چوکی پر لے گیا جہاں روایتی انداز میں ایس ایچ او باوردی بیڈ پر لیٹا ہوا تھا اور کسی حراستی سے پاؤں دبوا رہا تھا۔ایس ایچ او نے انہیں کہا کہ آپ ہوٹل میں غلط کاری کرتے ہو لہٰذا مجھے 70 ہزار روپے ماہانہ دیں بصورت دیگر آپ کے ہوٹل پر چھاپا مار کر کاروبار بند کر دوں گا اور اگر کوئی وقوعہ ہوا تو اس کا پرچہ بھی آپ کے ہوٹل پر درج کروں گا۔امجد حسین کے مطابق انہوں نے بتایا کہ وہ آرمی سے ریٹائرڈ آفیسر ہیں اور ہوٹل کے مالک بھی پڑھے لکھے اور اچھے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں، ہوٹل پر کبھی کوئی غلط کام نہ ہوا اور نہ ہوتا ہے جس پر ایس ایچ او نے انہیں ڈرایا دھمکایا اور صاف کہا کہ ہوٹل چلانا ہے تو ماہانہ بھتا دینا پڑے گا۔پولیس حکام کے مطابق اس سلسلے میں اختر حسین سے تحریری درخواست وصول کی گئی اور ایس ایس پی آپریشن سہیل اشرف نے منصوبہ بندی کی۔ پولیس حکام کے مطابق اس سلسلے میں اعلیٰ افسران کی نگرانی میں خصوصی ٹیمیں تشکیل دی گئی تھیں۔ منصوبہ بندی کے تحت محمد مشتاق رقم لے کر اختر حسین کے پاس پہنچے جو انہیں لے کر ایس ایچ او ندیم شیخ کے پاس گئے۔


محمد مشتاق نے جونہی رقم ایس ایچ او شیخ ندیم کو دی تو ایس پی سول لائن حسن جاوید بھٹی کی نگرانی میں پولیس پارٹی نے چھاپا مار دیا۔ دلچسپ بات یہ کہ اس تمام کارروائی کی فلم بندی بھی کی گئی۔ نشان زدہ نوٹ برآمد کر کے ایس ایچ او ندیم شیخ اور سب انسپیکٹر اختر حسین کے خلاف ہوٹل منیجر محمد مشتاق کی مدعیت میں ایف آئی آر نمبر 1055/23 تعزیرات پاکستان کی دفعات 384 اور 155 کے تحت درج کر لی گئی۔مقدمے کے تحت دونوں ملزمان کو گرفتار کر کے لاک اپ بھی کر دیا گیا۔ ایس ایچ او اور اس کے ساتھی پولیس افسر کے خلاف انتہائی سخت محکمانہ کارروائی بھی کی جا رہی ہے۔واضح رہے کہ ہوٹل کے مالکان برطانیہ میں مقیم مختلف کاروبار سے منسلک ہیں جنہوں نے وطن کی محبت کی خاطر پاکستان کے دل لاہور میں خطیر انویسٹمنٹ کی ہے۔