فرمان الہی بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ. الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ   اللہ کے نام سے شروع جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے. سب طرح کی تعریف خدا ہی کو (سزاوار) ہے جو تمام مخلوقات کا پروردگار ہے بڑا مہربان نہایت رحم والا انصاف کے دن کا حاکم (اے پروردگار) ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں ہم کو سیدھے رستے چلا ان لوگوں کے رستے جن پر تو اپنا فضل وکرم کرتا رہا نہ ان کے جن پر غصے ہوتا رہا اور نہ گمراہوں کے   *        I Free Palestinevisit to ANF
19 Aug
This is also one aspect of the Jaranwala incident!

!جڑانوالہ واقعہ کا ایک پہلو یہ بھی

جڑانوالہ میں قرآن پاک اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بے حرمتی کی گئی ، اس کے نتیجے میں مسلمانوں نے اجتماعی ظلم و تو میں مذہب کا ارتکاب کیا یہ دونوں روئیے اور طرز عمل یکساں طور پر قابل مذمت ہیں۔ بے حرمتی کرنے والے جنونی شخص کا گھر یلو ریکارڈ اور اس کی بہن کا بیان اس کے متشددانہ ذہنی رجحانات کو واضح کرتا ہے اور اس بابت اس کے ماں باپ اور خاص طور پر اس کی بہن ہم سب کی طرف سے بہت داد اور تحسین کی مستحق ہے جس نے اپنے بھائی کا باز وحتی کہ گریبان تک پکڑ کر اپنے بھائی کو جھنجھوڑا اور اسے اس حرکت سے باز رکھنے کی پوری کوشش کی ۔ اس پورے واقعہ کے بعد مختلف تبصرے کئے جارہے ہیں میرے خیال میں اس واقعہ کو ایک اور زاویہ سے دیکھنا بھی از حد ضروری ہے۔ پاکستان کے معاشی حالات اور بڑھتی ہوئی مہنگائی اور دیگر مسائل نے تقریباً ہر پاکستانی کو مسائل سے نکلنے کیلئے بہر صورت سوچنے پر مجبور کر دیا ہے ۔ اس صورت حال میں ایک عام سا راستہ ملک کو چھوڑ کر کسی دوسرے ملک میں چلے جاتا ہے اور پچھلے مختصر عرصہ میں پاکستان چھوڑ کر یا ہر ملک جانے والوں کی تعداد میں حیران کن ضافہ اس کی دلیل ہے ۔ روزانہ کی بنیاد پر چالیس ہزار سے زائد پاسپورٹس کا اجراء اور خاص طور پر یو کے، امریکہ، کینیڈا کی ایمبیسیوں میں حد سے زیادہ رش حتی کہ Appointment ملنا مشکل ہو چکا ہے اس کو واضح کرتا ہے کہ جو بھی پاکستان سے کہیں جا سکتا ہے وہ جانا چاہ رہا ہے۔ ایسے حالات میں بطور پاکستانی کسی بھی سیحی جو ان کے دل میں اس خواہش کا پیدا ہونا فطری امر ہے کہ وہ کیسے باہر کسی ملک میں منتقل ہو سکتا ہے۔ پاکستان کے ماضی میں رونما ہونے والے تو مین مذہب کے واقعات کے بعد کے حالات واضح کرتے ہیں کہ اس کے نتیجے میں کسی غیر مسلم کو پاکستان میں قانون کے مطابق سزا نہیں ہوگی بلکہ مغربی دنیا نے اس میں نامزد افراد کو پیشگی اپنے ملک کی شہریت دینے کا اعلان کیا اور انہیں با حفاظت باہر ممالک بھجوایا بھی گیا۔ اس کے بعد مغرب کی شہریت کے ساتھ وہاں کی آسائشوں سے خوب مستفید ہونے کا پورا موقعہ بھی اس کو میسر آیا۔ لہذا جڑانوالہ کے سانحہ میں دیگر وجوہات کے ساتھ اس پہلو کو سامنے رکھنا بھی اس حد ضروری ہے۔ پورے واقعہ کے تناظر میں مسلمانوں کا اس طرح مسیحی برادری پر اجتماعی چڑ دوڑ نا اور ان کے مکانات وعبادت گاہوں کی توہین کرنا انتہائی خطرناک اور عدم برداشت سے عاری معاشرے کی عکاسی کرتا ہے جو انتہائی قابل مذمت ہونے کے ساتھ قابل فکر بھی ہے ۔ میڈیا نے اس ظلم و ستم کی خوب تشہیر کر کے اپنے تئیں شاید کوئی فریضہ انجام دیا ہو لیکن اس کی بنیاد قرآن پاک کی تو ہین ہے اس سانحہ کی اصل بنیاد پر بھی کہیں بات ہوئی ؟ شاید بہت کم بات کی گئی ہے ، قیام پاکستان سے اب تک جڑانوالہ کے مکین عیسائیوں کو آج تک کسی بھی مذہبی یا سماجی پریشانی کا جڑانوالہ کے مسلمانوں کی طرف سے   سامنا نہیں کرنا پڑا کیا۔ 75 سالہ پرامن دور کسی حسین کے قابل نہیں ، آخر اس تشدد کا دروازہ کیوں کھلا، کیا پاکستان یا کسی بھی مسلم اکثریتی ملک میں بسنے والے غیر نسلوں پر یہ قانونی اور اخلاقی طور پر لازم نہیں کہ وہ ہمیشہ مسلمانوں کے شعائر اور مقدسات کا احترام کریں؟ ہم مسلمان عیسائیوں پر کئے گئے اس ظلم اور زیادتی پر شرمندہ ہونے کے ساتھ اس کی پر زور مذمت بھی کرتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس قلم اور زیادتی کا دروازہ کھولنے پر ان مسیحی جوانوں کے طرز عمل اور تو ہین قرآن اور توہین رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی پر زور مذمت کرتے ہیں ۔ اب حکومت اپنی ذمہ داری یقیناً پوری کرے گی ، ملوث مسلمان حضرات کو قرار واقعی سزا بھی ملے گی ، تمام مسیحی عبادت گا میں پہلے سے زیادہ خوب صورت اور نئی تعمیر ہوں گی ، مسمار شدہ گھر نئے تعمیر ہوں گے ، دیگر نقصانات کے ازالہ کیلئے کروڑوں روپے کی امداد دی جائے گی لیکن ملوث مسیحی افراد اور ان کے رشتہ دار مغرب کے ویزے لے کر وہاں پرسکون زندگی گزاریں گے ان کی آنے والی نسلیں اپنی اس گستاخی کو کار نامہ سمجھ کر اپنی پر تعیش زندگی کے حصول کا کامیاب تجربہ سمجھیں گے ۔ لیکن جڑانوالہ کے باسی صرف اس جڑانوالہ کے باسی ہونے کی کیا کیا سزا بھگتیں گے ۔ جڑانوالہ کے وہ پاکستانی جو مغرب کے کسی ملک میں ہیں ان کو کیا مسائل در پیش ہوں گے، تو ہین قرآن کا ازالہ کیسے ہوگا ، ہمارے ان جذباتی مسلمان بھائیوں کے اس طرز عمل سے پاکستان کے پر امن اور روادارانہ معاشرے کے قیام کی کوششوں کو کتنا نقصان ہوا ، اس پر مجھے آپ ہم سب کو سنجیدگی سے ضرور سوچنا چاہئے اور اس طرح کی صورت حال کے مابعد مذہبی اور قومی فوائد و نقصانات کی ایک لسٹ بھی ضرور بنانی چاہئے تا کہ اس کی روشنی میں ہم مسلمان کوئی بہتر لائحہ عمل تیار کر سکیں اور اس پر خود بھی ہم پیرا ہوں اور دوسرے مسلمانوں کو بھی اس پر عمل کیلئے آمادہ کر سکیں ۔