فرمان الہی بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ. الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ   اللہ کے نام سے شروع جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے. سب طرح کی تعریف خدا ہی کو (سزاوار) ہے جو تمام مخلوقات کا پروردگار ہے بڑا مہربان نہایت رحم والا انصاف کے دن کا حاکم (اے پروردگار) ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں ہم کو سیدھے رستے چلا ان لوگوں کے رستے جن پر تو اپنا فضل وکرم کرتا رہا نہ ان کے جن پر غصے ہوتا رہا اور نہ گمراہوں کے   *        I Free Palestinevisit to ANF
07 Aug
Imran Khan ki giraftari Makafat e Amal hai Barrister Amjad Malik

سیاستدان بحیثیت ادارہ جمہوریت کو مضبوط کریں اور اصلاحات کی راہ اختیار کریں بیرسٹر امجد ملک

عمران خان کی بے ایمانی ثابت ، چوری پکڑی گئی جرم ثابت ہو گیا ۔ سال کی سزا اور ایک لاکھ جرمانہ ۔ بہت آسان سا سبق ہے کہ اے انسان اللہ سے ڈرتار ہے، زمین پر اکڑ کر مت چل ۔ تو شہ خانہ کیس : 42 سے زائد سماعتیں مجرم چار مرتبہ پیش ہوا۔ الیکشن کمیشن نیڈینٹئیر ٹرائل کے لیے سیشن کورٹ بھجوایا صفائی کا پورا موقع دیا گواہیاں آئیں گواہوں پر ملزم کے وکلاء نے جرح کی۔ حج کوملزم کے وکلاء نے گالیاں دیں حتمی دلائل سے فرار اختیار کیا جھوٹ بولا وکیل احتساب عدالت میں ہے۔ پانامہ کیس۔ سپریم کورٹ نے پہلے درخواست مسترد کی پھر خود کہہ کر لگائی جے آئی ٹی بنائی سارا شریف خاندان بشمول وزیر اعظم پیش ہوار سیدمیں دیں تین نسلوں کی تلاشی دی 100 سے زیادہ پیشیاں بھگتیں سزا پر موت وحیات کی کشمکش میں اہلیہ کو چھوڑ بیٹی کا ہاتھ پکڑ گرفتاری دی۔ جیل بھگتی۔ اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان جو اقتدار کے ون پیچ سر کا ہائی پیڈسٹل پر سوار تھے انہوں نے اس اقتدار کے نشے اور ضعم میں اپنی حزب اختلاف کا ایک بھی سرکردہ لیڈ ر جیل سے باہر نہیں چھوڑا۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف 347 دن جیل میں رہے۔ سابق وزیر اعلی شہباز شریف اور صدر مسلم لیگ ن 207 دن جیل میں رہے اور انکے بیٹے حمزہ شہباز شریف 627 دن جیل میں رہے۔ سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی 222 دن جیل میں رہے۔ سابق وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق 462 دن جیل میں رہے۔ سابق وزیر دفاع خواجہ آصف 176 دن جیل میں رہے۔ مسلم لیگ ن کے سیکرٹری جنرل اور سابق وزیر پلاننگ احسن اقبال 66 دن جیل میں رہے۔ سابق وزیر قانون پنجاب اور پارٹی عہدیدار رانا ثناء اللہ جعلی ہیروئن رکھنے کا مقدمہ بھگتے اور 174 دن قید میں رہے۔ تب ہی یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ مکافات عمل ہے۔ آج کی گرفتاری مکافات عمل ہے آپ جو بوتے ہیں وہی کاٹتے ہیں، تو شہ خانہ کے تحائف بیچنا قابل شرم عمل تھا۔ ریاستی طور پر تھے دینا اور لینا مروجہ بین الاقوامی روائت ہے اور مسلمان ریاستوں میں سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہے۔ ہر ریاستی سربراہ دوسرے کو اپنے ملک اور عوام کی نمائیندگی کرتے ہوئے تحائف دیتا ہے۔ اس عزت افزائی سے ایک دوسرے کے تاریخ تعلقات اور انکی ماہیت اور سٹیٹس کا پتہ چلتا ہے۔ تمام متخالف سرکاری تو شہ خانہ میں جمع ہوتے ہیں۔ آپ ذاتی استعمال کیلئے قانون پر عمل کر کے رکھ سکتے ہیں لیکن مارکیٹ میں اجلت میں پینا یا انکی عوامی طور پر بے قدری کر نا صریحانا قابل تلافی و معافی جرم ہی گردانا جاتا ہے۔ تھے بیچنا جرم ہے ہی لیکن تمام ملکی ادارے بھی اپنا احتساب کریں کہ انکی ناک کے نیچے یہ سب ہو رہا سب ہور ہا تھا اور وہ چپ سادھے بیٹھے رہے۔ ڈبے اٹھانے اور تبدیلی کو زور بازو نافذ العمل کرنے کے معاملے کی تحقیق ہی سمت کا تعین کرنے میں مددگار ہوگی۔ عمران خان اپنے انجام کو پہنچ گیا، وہ عمران خان جو نیب کو سیاسی مخالفین کے خلاف بے دردی سے استعمال کرتا تھا وہ آج تو شہ خانہ چوری میں پکڑا گیا۔ نا کوئی سیاسی انتقام نا کوئی سیاسی گرفتاری ۔ آج پاکستان کا سوشل میڈیا وٹک ٹا کر گرفتار ہو گیا، نا کوئی اسکے لئے باہر نکلانا کوئی احتجاج ۔ عوام اس سیاسی مسخرے کو جان چکی ہے۔ آج تحریک انصاف کا مکافات عمل اور یوم استحصال ہے۔ آج قائد مسلم لیگ ن نواز شریف کی بات نے اپنا بیچ منوالیا ہے جب انہوں نے کہا تھا کہ میں اپنا معاملہ اللہ پر چھوڑتا ہوں۔ آج اس سازش کے سب کردار زلیل و رسوا ہور ہے ہیں۔ اور نواز شریف آج بھی مقبول عوامی لیڈر ہیں۔ سیاستدان بحیثیت ادارہ سیاست اور جمہوریت کو مضبوط کریں اور اصلاحات کی راہ اختیار کریں۔ عدالتی اصلاحات وقت کی اہم ضرورت ہے سیاستدان معنی خیز مزاکرات کے زریعے قوم کو اقتصادی بحران سے نکالیں ۔ اس مذاکرات کی میز پر تحریک انصاف کو بھی ہونا چاہیے اور انکے لیڈر کے پیشکش کو رد نہیں کرنا چاہیے۔ بامقصد مزاکرات نگران حکومتیں بنانے اور فری فئیر اور منصفانہ الیکشن منعقد کروانے میں مدد گار ثابت ہوں گے۔ اس تمام کا روائی سے سبق یہی ہے کہ جو تنقید نگار ہیں انکی بھی عزت کریں اور اصلاح کا پہلو تلاش کریں۔ عزت دینا ہر کسی کے بس کی بات نہیں لیکن اختیار ملے تو عاجزی اختیار کرنا چاہیے کیونکہ ? صراحی سرنگوں ہو کر بھرا کرتی ہے پیمانہ۔ اللہ پاک سب کی عزت میں اضافہ کریں آمین۔ وہی عزتوں کا محافظ اور ہمارا پالن ہار ہے۔