فرمان الہی بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ. الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ   اللہ کے نام سے شروع جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے. سب طرح کی تعریف خدا ہی کو (سزاوار) ہے جو تمام مخلوقات کا پروردگار ہے بڑا مہربان نہایت رحم والا انصاف کے دن کا حاکم (اے پروردگار) ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں ہم کو سیدھے رستے چلا ان لوگوں کے رستے جن پر تو اپنا فضل وکرم کرتا رہا نہ ان کے جن پر غصے ہوتا رہا اور نہ گمراہوں کے   *        I Free Palestinevisit to ANF
22 Feb
Independent candidates and numbers game: How stable will the new government in Punjab province be?

آزاد امیدوار اور نمبرز گیم: صوبہ پنجاب میں بننے والی نئی حکومت کتنی مستحکم ہو گی؟


پاکستان میں مرکزی حکومت قائم کرنے کا راستہ زیادہ تر صوبہ پنجاب سے ہو کر گزرتا ہے اور عمومی طور پر جس سیاسی جماعت کو انتخابات میں پنجاب سے برتری حاصل ہو جائے اس کے لیے مرکز کا دروازہ باآسانی کُھل جاتا ہے۔پھر مرکز میں بہتر انداز حکومت چلانا بھی کافی حد تک پنجاب میں اقتدار سے جڑا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سنہ 2018 میں پاکستان تحریک انصاف نے پنجاب اسمبلی میں سب سے بڑی جماعت نہ ہونے کے باوجود بھی اپنی حکومت بنانے پر زور دیا تھا۔تکنیکی طور پر پی ٹی آئی کی نشستوں کی تعداد پاکستان مسلم لیگ ن کی نشستوں سے کم ہونے کے باوجود سابق وزیراعظم عمران خان کی جماعت نے آزاد امیدواروں اور پاکستان مسلم لیگ ق کو ساتھ ملا کر حکومت بنانے کے لیے 186 کا مطلوبہ ہدف پورا کیا تھا۔پنجاب پر گرفت کی اہمیت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ سنہ 2022 میں جوں ہی مرکز میں عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک آئی تو اُن کی مخالف اتحادی جماعتوں نے پہلی فرصت میں پنجاب میں بھی انھیں چلتا کرنے پر کام شروع کیا۔پی ٹی آئی کے اُس وقت کے وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لائی گئی، وہ مستعفیٰ ہوئے، ان کی کابینہ فارغ ہو گئی اور اس صورتحال کے باعث اُن کی جگہ پی ٹی آئی کو اپنی اتحادی جماعت پاکستان مسلم لیگ ق سے چوہدری پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ کا امیدوار مقرر کرنا پڑا۔تاہم متحدہ حزبِ اختلاف ہر قیمت پر پنجاب اُن سے لینے پر اپنی توجہ مرکوز کیے رہی اور وہ بھی یہ عہدہ چھوڑنے کو تیار نہیں تھے۔اس کے بعد پنجاب پر اقتدار کی جنگ نے صوبے کو اس وقت ایک آئینی بحران میں ڈال دیا جب ایک جماعت کا وزیراعلیٰ آیا تو دوسری نے ماننے سے انکار کر دیا اور وہ وقت بھی آیا جب ایک ہی دن میں پنجاب اسمبلی کے دو مختلف مقامات پر اجلاس ہوئے۔پنجاب پر حکومت قائم کرنے کی رسہ کشی میں بات یہاں تک پہنچی کہ پی ٹی آئی نے ایک مرتبہ حکومت کھونے کے بعد ضمنی انتخابات کروا کر دوبارہ واپس ملنے پر اسمبلی ہی تحلیل کر دی۔ اس کے بعد سے حالیہ انتخابات ہونے تک پنجاب میں نگران حکومت رہی۔تو کیا حالیہ انتخابات کے بعد پنجاب میں حکومت قائم کرنے کی رسہ کشی تھم جائے گی یا کسی آئینی بحران کا دروازہ اب بھی کُھلا ہے؟سیاسی مبصرین سمجھتے ہیں کہ اس مرتبہ ن لیگ بظاہر باآسانی حکومت قائم کرتی نظر آ رہی ہے تاہم ساتھ ہی ماضی کی طرح پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدوار دوسرا بڑا گروپ بن کر سامنے آئے ہیں اور ان کی نشستیں سو سے زیادہ ہیں۔

آنے والی حکومت نمبر گیم میں کتنی مضبوط ہو گی؟

ماضی میں پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت کو کڑے وقت کا سامنا اس لیے کرنا بڑا کہ بنیادی طور پر اُن کی اپنی ’نمبر گیم‘ مضبوط نہیں تھی یعنی ان کے پاس حکومت بنانے کے لیے درکار نمبرز نہیں تھے۔اس کے لیے انھیں آزاد امیدواروں اور ق لیگ کی ضرورت پڑی۔ اس میں قباحت یہ تھی کہ ان اراکین کا تعلق ان کی جماعت سے نہیں تھا اس لیے وہ کسی بھی وقت وفاداری تبدیل کر سکتے تھے اور یہی ہوا بھی۔تاہم صحافی اور تجزیہ نگار سہیل وڑائچ سمجھتے ہیں کہ اس مرتبہ ن لیگ کے پاس مطلوبہ نمبرز باآسانی پورے ہو رہے ہیں اور ’وہ حکومت بناتے نظر آ رہے ہیں۔ اور یہ حکومت ماضی کے برعکس مستحکم حکومت نظر آ رہی ہے۔‘پنجاب اسمبلی میں اس وقت پارٹی پوزیشن پر نظر ڈالی جائے تو کسی بھی جماعت کے پاس واضح اکثریت موجود نہیں۔ تاہم ن لیگ سب سے بڑی جماعت ہے جس کی 137 نشستیں تھیں اور دوسرے نمبر پر پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کی تعداد 116 تھی۔ن لیگ کا دعوٰی ہے کہ وہ اب تک 16 آزاد امیدواروں کو اپنی پارٹی میں شامل کرنے میں کامیاب ہو چکی ہے۔ اسمبلی میں آزاد امیدواروں کی کل تعداد 22 تھی جو کسی بھی جماعت کی ٹکٹ کے بغیر انتخابات میں جیتے ہیں۔یوں اگر ن لیگ کو ملنے والی خواتین کی مخصوص نشستوں اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کو ملایا جائے تو وہ باآسانی 186 کا ہدف عبور کرتی نظر آ رہی ہے۔

’ن لیگ کو کسی کے ساتھ اتحاد کی ضرورت نہیں‘

صحافی اور تجزیہ نگار سہیل وڑائچ سمجھتے ہیں کہ ن لیگ کو اس وقت پنجاب میں حکومت قائم کرنے کے لیے کسی دوسری جماعت سے اتحاد کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ان کے خیال میں ’آنے والے چند دنوں میں چند مزید آزاد امیدوار بھی ان کے ساتھ شامل ہو سکتے ہیں جس سے ان کی نمبر گیم مزید مستحکم ہو جائے گی۔‘باقی جماعتوں میں پاکستان پیپلز پارٹی کی 10 جبکہ ق لیگ کی 8 نشستیں ہیں۔ تاہم سہیل وڑائچ کے خیال میں ن لیگ کو اب ان میں سے ’کسی کے ساتھ اتحاد کی ضرورت نہیں۔ باقیوں کو ضرورت ہو سکتی ہے۔‘اگر پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار کسی جماعت کے ساتھ شامل نہیں ہو پاتے اور ان کا درجہ آزاد امیدوار کا ہی رہتا ہے تو اس صورت میں ن لیگ کو ملنے والی مخصوص نشستوں کی تعداد مزید بڑھ جائے گی۔صحافی اور تجزیہ کار سلمان غنی کے خیال میں مریم نواز شریف کے وزیراعلیٰ بننے کے ساتھ باقی بچنے والے آزاد امیدوار بھی ن لیگ میں شامل ہو سکتے ہیں۔ تاہم وہ سمجھتے ہیں کہ ضرورت نہ ہونے کے باوجود بھی ن لیگ پی پی پی کے ساتھ پنجاب میں اتحاد کر سکتی ہے۔

ضرورت نہیں تو اتحاد کیوں؟

ن لیگ اگر کسی دوسری جماعت کے ساتھ اتحاد کیے بغیر بھی حکومت بنا سکتی ہے تو پھر وہ پی پی پی اور ق لیگ سے اتحاد کیوں کرنا چاہے گی۔تجزیہ کار سلمان غنی کے مطابق اس کی وجہ مرکز میں حکومت سازی ہے۔ ’میری اطلاعات کے مطابق مرکز میں ن لیگ اور پی پی پی مل کر حکومت بنانے جا رہے ہیں اور اس کے بعد وہ پنجاب میں بھی اتحاد کرنا چاہیں گے۔‘حال ہی میں ن لیگ کے چند مرکزی رہنما اس بات کا اظہار کر چکے ہیں کہ وہ مرکز میں حکومت قائم کرنے کی خواہش نہیں رکھتے اور اُن کے خیال میں وہ صرف پنجاب میں حکومت بنائیں گے۔ تاہم دوسری طرف ن لیگ اور پی پی پی کی مرکز میں حکومت سازی کے لیے مذاکرات کرنے والی کمیٹیوں کی نشستیں جاری ہیں۔سلمان غنی سمجھتے ہیں کہ ’اگر ن لیگ اور پی پی پی مرکز میں حکومت بنانے پر رضامند ہو جاتے ہیں تو پی پی پی پنجاب میں بھی حکومت میں شراکت دار ہو گی۔‘ وہ بھی اس بات سے متفق ہیں کہ پنجاب کی حد تک ایسا اتحاد حکومت سازی کے لیے ن لیگ کی ضرورت نہیں ہے۔

کیا ن لیگ مرکز کو چھوڑ کر صرف پنجاب رکھ سکتی ہے؟

صحافی اور تجزیہ نگار سہیل وڑائچ سمجھتے ہیں کہ اس وقت اگر ن لیگ مرکز کو چھوڑ کر صرف پنجاب میں حکومت قائم کرتی ہے تو ’اس کو سیاسی طور پر فائدہ ہو گا۔ مرکز میں ویسے بھی اٹھارہوہیں ترمیم کے بعد زیادہ تر کام ٹیکس لگانے اور چیزوں کی قیمتیں بڑھانے یا کم کرنے کا ہی رہ گیا ہے۔‘وہ کہتے ہیں کہ ن لیگ ماضی میں بھی یہ کرتی آئی ہے کہ ’اس نے پنجاب کو اپنا مضبوط قلعہ بنایا ہے۔‘ سہیل وڑائچ کے مطابق اس طرح ن لیگ کو سیاسی طور پر فائدہ یہ ہو گا کہ ٹیکس بھی نہیں لگانے پڑیں گے اور بلوں کی قیمتوں کا بوجھ بھی نہیں اٹھانا پڑے گا۔وہ کہتے ہیں کہ اُن کو مرکز سے اپنے حصے کے 1100 ارب روپے تو مل ہی جائیں گے جو وہ ترقیاتی کاموں پر استعمال کر کے آئندہ کے لیے پنجاب میں اپنی سیاسی ساکھ مضبوط کر سکتے ہیں۔تجزیہ نگار سلمان غنی بھی سمجھتے ہیں کہ صوبہ پنجاب میں حکومت بنانے کا ن لیگ کو فائدہ ہو گا کیونکہ ان کے خیال میں ’مرکز میں قائم ہونے والی کمزور حکومت زیادہ عرصہ چلتی نظر نہیں آ رہی۔ اس لیے پنجاب میں ایک مضبوط حکومت ان کے فائدے میں ہو گی۔‘تاہم سلمان غنی سمجھتے ہیں کہ مرکز میں بھی ’پی پی پی کو ساتھ ملا کر ن لیگ کی حکومت بنانے کا فیصلہ تقریبا ہو چکا ہے۔‘

کیا مستقبل میں نمبرز گیم بدل سکتی ہے؟


ماہرین کے مطابق پنجاب کی حد تک اس مرتبہ ن لیگ کی نمبر گیم کافی حد تک مستحکم نظر آ رہی ہے۔ دوسری طرف اگر ان کی حکومت زیادہ تر ان آزاد امیدواروں کو ساتھ ملا کر بنتی ہے جن کا تعلق ان کی جماعت سے نہیں رہا تو کیا وہ کسی بھی وقت وفاداریاں تبدیل نہیں کر سکتے؟سہیل وڑائچ سمجھتے ہیں کی آنے والے دنوں میں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں میں سے بھی کچھ ن لیگ میں شامل ہو سکتے ہیں کیونکہ ’آزاد امیدوار زیادہ تر حکومت بنانے والی جماعت کی طرف ہی جاتے ہیں۔‘ان کے خیال میں وفاداری تبدیل کرنے پر سپریم کورٹ کے ماضی کے فیصلے کے بعد اب اس بات کا امکان کم ہے کہ ایک مرتبہ آزاد امیدواروں کو جماعت میں شامل کرنے کے بعد ن لیگ کی نمبر گیم کو زیادہ خطرہ ہو گا۔تو سوال یہ بھی ہے کہ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار وفاداری کیسے بدل پائیں گے؟ سہیل وڑائچ کہتے ہیں تکنیکی طور پر اس وقت تک جب وہ کسی جماعت میں شامل ہو رہے ہوں گے تو وہ آزاد ہوں گے اور آزاد امیدوار کسی بھی جماعت میں جا سکتا ہے۔تاہم اگر پی ٹی آئی اس معاملے پر عدالت میں جا کر یہ مؤقف اپناتی ہے کہ ان امیدواروں نے ووٹ عمران خان کے نام پر حاصل کیا اس لیے یہ کسی دوسری جماعت میں نہیں جا سکتے تو تجزیہ نگار سہیل وڑائچ کے خیال میں ’اس پر عدالت کو تشریح کرنا ہو گی۔‘وہ جو تشریح کرے گی اس کے مطابق فیصلہ ہو گا تاہم اس صورت میں بھی پنجاب میں ن لیگ کی حکومت کو بظاہر کوئی خطرہ نہیں ہو گا۔