I
پاکستان میں مرکزی حکومت قائم کرنے کا راستہ زیادہ تر صوبہ پنجاب سے ہو کر گزرتا ہے اور عمومی طور پر جس سیاسی جماعت کو انتخابات میں پنجاب سے برتری حاصل ہو جائے اس کے لیے مرکز کا دروازہ باآسانی کُھل جاتا ہے۔پھر مرکز میں بہتر انداز حکومت چلانا بھی کافی حد تک پنجاب میں اقتدار سے جڑا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سنہ 2018 میں پاکستان تحریک انصاف نے پنجاب اسمبلی میں سب سے بڑی جماعت نہ ہونے کے باوجود بھی اپنی حکومت بنانے پر زور دیا تھا۔تکنیکی طور پر پی ٹی آئی کی نشستوں کی تعداد پاکستان مسلم لیگ ن کی نشستوں سے کم ہونے کے باوجود سابق وزیراعظم عمران خان کی جماعت نے آزاد امیدواروں اور پاکستان مسلم لیگ ق کو ساتھ ملا کر حکومت بنانے کے لیے 186 کا مطلوبہ ہدف پورا کیا تھا۔پنجاب پر گرفت کی اہمیت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ سنہ 2022 میں جوں ہی مرکز میں عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک آئی تو اُن کی مخالف اتحادی جماعتوں نے پہلی فرصت میں پنجاب میں بھی انھیں چلتا کرنے پر کام شروع کیا۔پی ٹی آئی کے اُس وقت کے وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لائی گئی، وہ مستعفیٰ ہوئے، ان کی کابینہ فارغ ہو گئی اور اس صورتحال کے باعث اُن کی جگہ پی ٹی آئی کو اپنی اتحادی جماعت پاکستان مسلم لیگ ق سے چوہدری پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ کا امیدوار مقرر کرنا پڑا۔تاہم متحدہ حزبِ اختلاف ہر قیمت پر پنجاب اُن سے لینے پر اپنی توجہ مرکوز کیے رہی اور وہ بھی یہ عہدہ چھوڑنے کو تیار نہیں تھے۔اس کے بعد پنجاب پر اقتدار کی جنگ نے صوبے کو اس وقت ایک آئینی بحران میں ڈال دیا جب ایک جماعت کا وزیراعلیٰ آیا تو دوسری نے ماننے سے انکار کر دیا اور وہ وقت بھی آیا جب ایک ہی دن میں پنجاب اسمبلی کے دو مختلف مقامات پر اجلاس ہوئے۔پنجاب پر حکومت قائم کرنے کی رسہ کشی میں بات یہاں تک پہنچی کہ پی ٹی آئی نے ایک مرتبہ حکومت کھونے کے بعد ضمنی انتخابات کروا کر دوبارہ واپس ملنے پر اسمبلی ہی تحلیل کر دی۔ اس کے بعد سے حالیہ انتخابات ہونے تک پنجاب میں نگران حکومت رہی۔تو کیا حالیہ انتخابات کے بعد پنجاب میں حکومت قائم کرنے کی رسہ کشی تھم جائے گی یا کسی آئینی بحران کا دروازہ اب بھی کُھلا ہے؟سیاسی مبصرین سمجھتے ہیں کہ اس مرتبہ ن لیگ بظاہر باآسانی حکومت قائم کرتی نظر آ رہی ہے تاہم ساتھ ہی ماضی کی طرح پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدوار دوسرا بڑا گروپ بن کر سامنے آئے ہیں اور ان کی نشستیں سو سے زیادہ ہیں۔
ماضی میں پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت کو کڑے وقت کا سامنا اس لیے کرنا بڑا کہ بنیادی طور پر اُن کی اپنی ’نمبر گیم‘ مضبوط نہیں تھی یعنی ان کے پاس حکومت بنانے کے لیے درکار نمبرز نہیں تھے۔اس کے لیے انھیں آزاد امیدواروں اور ق لیگ کی ضرورت پڑی۔ اس میں قباحت یہ تھی کہ ان اراکین کا تعلق ان کی جماعت سے نہیں تھا اس لیے وہ کسی بھی وقت وفاداری تبدیل کر سکتے تھے اور یہی ہوا بھی۔تاہم صحافی اور تجزیہ نگار سہیل وڑائچ سمجھتے ہیں کہ اس مرتبہ ن لیگ کے پاس مطلوبہ نمبرز باآسانی پورے ہو رہے ہیں اور ’وہ حکومت بناتے نظر آ رہے ہیں۔ اور یہ حکومت ماضی کے برعکس مستحکم حکومت نظر آ رہی ہے۔‘پنجاب اسمبلی میں اس وقت پارٹی پوزیشن پر نظر ڈالی جائے تو کسی بھی جماعت کے پاس واضح اکثریت موجود نہیں۔ تاہم ن لیگ سب سے بڑی جماعت ہے جس کی 137 نشستیں تھیں اور دوسرے نمبر پر پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کی تعداد 116 تھی۔ن لیگ کا دعوٰی ہے کہ وہ اب تک 16 آزاد امیدواروں کو اپنی پارٹی میں شامل کرنے میں کامیاب ہو چکی ہے۔ اسمبلی میں آزاد امیدواروں کی کل تعداد 22 تھی جو کسی بھی جماعت کی ٹکٹ کے بغیر انتخابات میں جیتے ہیں۔یوں اگر ن لیگ کو ملنے والی خواتین کی مخصوص نشستوں اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کو ملایا جائے تو وہ باآسانی 186 کا ہدف عبور کرتی نظر آ رہی ہے۔
صحافی اور تجزیہ نگار سہیل وڑائچ سمجھتے ہیں کہ اس وقت اگر ن لیگ مرکز کو چھوڑ کر صرف پنجاب میں حکومت قائم کرتی ہے تو ’اس کو سیاسی طور پر فائدہ ہو گا۔ مرکز میں ویسے بھی اٹھارہوہیں ترمیم کے بعد زیادہ تر کام ٹیکس لگانے اور چیزوں کی قیمتیں بڑھانے یا کم کرنے کا ہی رہ گیا ہے۔‘وہ کہتے ہیں کہ ن لیگ ماضی میں بھی یہ کرتی آئی ہے کہ ’اس نے پنجاب کو اپنا مضبوط قلعہ بنایا ہے۔‘ سہیل وڑائچ کے مطابق اس طرح ن لیگ کو سیاسی طور پر فائدہ یہ ہو گا کہ ٹیکس بھی نہیں لگانے پڑیں گے اور بلوں کی قیمتوں کا بوجھ بھی نہیں اٹھانا پڑے گا۔وہ کہتے ہیں کہ اُن کو مرکز سے اپنے حصے کے 1100 ارب روپے تو مل ہی جائیں گے جو وہ ترقیاتی کاموں پر استعمال کر کے آئندہ کے لیے پنجاب میں اپنی سیاسی ساکھ مضبوط کر سکتے ہیں۔تجزیہ نگار سلمان غنی بھی سمجھتے ہیں کہ صوبہ پنجاب میں حکومت بنانے کا ن لیگ کو فائدہ ہو گا کیونکہ ان کے خیال میں ’مرکز میں قائم ہونے والی کمزور حکومت زیادہ عرصہ چلتی نظر نہیں آ رہی۔ اس لیے پنجاب میں ایک مضبوط حکومت ان کے فائدے میں ہو گی۔‘تاہم سلمان غنی سمجھتے ہیں کہ مرکز میں بھی ’پی پی پی کو ساتھ ملا کر ن لیگ کی حکومت بنانے کا فیصلہ تقریبا ہو چکا ہے۔‘