فرمان الہی بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ. الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ   اللہ کے نام سے شروع جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے. سب طرح کی تعریف خدا ہی کو (سزاوار) ہے جو تمام مخلوقات کا پروردگار ہے بڑا مہربان نہایت رحم والا انصاف کے دن کا حاکم (اے پروردگار) ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں ہم کو سیدھے رستے چلا ان لوگوں کے رستے جن پر تو اپنا فضل وکرم کرتا رہا نہ ان کے جن پر غصے ہوتا رہا اور نہ گمراہوں کے   *        I Free Palestinevisit to ANF
08 Nov
Cipher Case: Hearing on Shah Mehmood Qureshi's bail application

سائفر کیس: شاہ محمود قریشی کی درخواستِ ضمانت پر سماعت


سائفر کیس میں سابق وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی کی درخواستِ ضمانت اور فردِ جرم عائد کرنے کے فیصلے کے خلاف سماعت جاری ہے۔اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق سماعت کر رہے ہیں۔

شاہ محمود قریشی کی درخواستِ ضمانت پر وقفے کے بعد سماعت کا آغاز ہو گیا۔

اس سے قبل سماعت کا احوال

اس سے قبل پراسیکیوٹر راجہ رضوان عباسی نے شاہ محمود قریشی کی ضمانت کی درخواست پر اعتراض کیا۔چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ لیکن یہ تو ضمانت کی درخواست ہے۔ پراسیکیوٹر راجہ رضوان عباسی نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے تناظر میں سرٹیفکیٹ جمع کروانا ہوتا ہے وہ نہیں ہے۔جج نے کہا کہ سرٹیفکیٹ شریک ملزم کا نہیں ہے لیکن اس کا ریفرنس تو دیا ہوا ہے۔شاہ محمود قریشی کے وکیل علی بخاری نے کہا کہ کرمنل کیسز میں اگر 10 کیسز ہیں تو 10 وکیل بھی ہو سکتے ہیں۔چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ ایسے معاملات میں دیگر کیسز کو یکجا کر دیا جاتا ہے، ہمارے ہاں بہت ساری غلطیاں ہوتی ہیں ہم اس کو مان لیتے ہیں۔ وکیل علی بخاری نے کہا کہ ٹرائل کورٹ نے میرے موکل کی ضمانت خارج کر دی تھی، ٹرائل کورٹ سے ضمانت مسترد ہونے کے بعد ہائی کورٹ میں یہ پہلی درخواست ضمانت ہے، ہم نے دستاویز کی فوٹو کاپی لگائی ہے کیونکہ ہمیں اصل کاپی فراہم نہیں کی گئی۔چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامر فاروق نے کہا کہ اعتراض دور کرتے ہیں، کیس کا ریکارڈ پیش کریں اور دلائل دیں۔ ایف آئی اے کے پراسیکیوٹر نے کہا کہ کچھ وقت دیا جائے ہم ریکارڈ پیش کر دیتے ہیں۔ 

سماعت میں کچھ دیر کا وقفہ

اسلام آباد ہائی کورٹ نے کیس کا متعلقہ ریکارڈ پیش ہونے تک سماعت میں وقفہ کیا گیا۔چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ 15 منٹ کا وقت ہے ریکارڈ کے ساتھ آئیں پھر کیس سنتے ہیں۔